قارئین! آپ کیلئے قیمتی موتی چن کر لاتا ہوں اور چھپاتا نہیں‘ آپ بھی سخی بنیں اور ضرور لکھیں (ایڈیٹر: شیخ الوظائف حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی)
92 سالہ اماں کی فٹنس بحال
چھوٹا ہی تھا کہ والدہ مرحومہ رحمۃ اللہ علیہاکے ساتھ بعض اوقات مجھے ایک گھرانے میں جانا ہوتا تھا ‘اماں کا مزاج تھا کہ وہ لوگوں کو کھلاتی پلاتیں اور دیتی دلاتی بہت تھیں۔ ایک گھر میں ایک بوڑھی خاتون جن کو سب ’’دادی اماں‘‘ کہتے تھے‘ ان سے اماں کا تعلق تھا۔ گھنٹوں ان کے پاس بیٹھنا‘ دعائیں دینا اور لینا اور ہدیہ لے کرجانا۔ بوڑھی خاتون کی عمر کا اندازہ مجھے ایسے ہوا کہ کہتی تھیں میں نینی تال انڈیا سے جب آئی تھی تو اس وقت میری ایک بیٹی جوان تھی اوردو بچے سمجھ دار تھے‘ میں نے عمر کا اندازہ لگایا کہ اماں کی عمر اس وقت بیانوے سال تھی اور پھر اماں سوسال سے بہت اوپرہوکر فوت ہوئیں اور مجھے جس چیز نے حیرت میں مبتلا کیا کہ اماں ہمیشہ صحت مند‘ تندرست‘ اٹھنے بیٹھنے میں نہایت چست اور باکمال بلکہ اس وقت کی جوان خواتین بھی حیران ہوتی تھیں کہ اماں کتنی صحت مند اور تندرست ہے اور یہ صحت اور تندرستی شاید ہر شخص کو میسر نہ ہو۔ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ بیانوےسال کی عمر میں بانس کی بڑی سیڑھی پر چڑھ کر گھر کےاوپر کا شیڈ صاف کررہی ہوتی تھیں‘ کبھی بلب بدل رہی ہوتیں جو کہ فیوز ہوچکا ہوتاتھا‘ کبھی چھت کےجالے اتار رہی ہوتیں‘ انہیں گھر والے روکتے تھےلیکن وہ صحت میں بالکل چست اور جوانی کی طرح کہ حیرت ہوتی تھی۔ گھر کی صفائی‘ گھر کے کام کاج حتیٰ کہ ایک بار تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ اس دور کی بات ہے جب سوئی گیس نہیں آئی تھی اور جلانے کے لیے عموماً لکڑیاں استعمال ہوتی تھیں۔
اماں صحت مند ہے تو کیوںہے؟تندرستی کا راز کیا؟
ایک بڑی موٹی لکڑی چولہے میں نہیں آرہی تھی اماں نے کلہاڑا لیا اس لکڑی کو ٹکڑےٹکڑے کرنا شروع کردیا۔ میں دیکھ رہا تھا‘ ان کا چہرہ سرخ تھااور لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑےکررہی تھیں اور ان کے اردگرد جوان پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں کھڑے مسکرا رہےتھےاوربہت سےقہقہے لگا رہےتھے۔قارئین! مجھےاس بات کااحساس ہے کہ ان کے خاندان میں اس راز کو کئی بار سنا ہوگا شاید کسی نے عمل کیاہو کیونکہ بوڑھی اماں جہاں پرانے قصے سناتی تھی وہاں لوگوں کو اپنی فٹنس تندرستی کےراز بھی بتاتی تھیں اور بتاتی تھیں کہ وہ صحت مند ہے تو کیوں ہے؟ ان کی تندرستی کا راز کیا ہے؟ ان کی صحت اور چستی کا کمال کیا ہے؟ لیکن مجھےیاد نہیں کیونکہ ان کے پوتے پوتیاں‘ نواسے اور نواسیاں اب بوڑھےہوچکے ہیں۔ اس خاندان سے تعلق ہے اماں کب کی فوت ہوچکی ہیں لیکن میں نے اماں کی طرح کسی کو صحت مند تندرست اورتوانا نہیں دیکھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اماں جو اپنےجسم کو وقت دیتی تھیں وہ یہ لوگ نہیں دےرہے ‘جب وقت دے نہیں رہے تو پانہیں رہے‘ جب پانہیں رہے تو اس کا اظہار نہیں ہورہا بلکہ اس دور میں جو سب سے زیادہ قہقہے لگانے والا ان کا پوتا تھا ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے بڑے تپاک محبت سےملا‘ لیکن مجھےحیرت ہوئی کہ وہ بہت بوڑھا ہوچکا تھا اور بہت ڈھل چکا تھا تو میں نے اچانک اس سے وہ بوڑھی اماںکا راز یاد دلایا۔ کہنےلگے :ہاں دادی اماں یہ باتیں اور اس کے علاوہ اور بھی صحت کےراز بتاتی تھیں مگراب کہاں فرصت ہے‘ مشینی دور ہے‘ اس طرح کی اور بہت سی مایوسی کی باتیں کرنے لگے۔
محلے کی ہر دلہن دادی اماں کے بغیرنہ سنورتی
میرے اندر احساس بیدار ہوا کہ ان کے پاس اپنے لیے وقت نہیں ہے اور یہ دراصل اپنے لیےہونا صرف اپنی ذات کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ وقت دراصل مخلوق کی خدمت کیلئے ہوتا ہے وہ بوڑھی اماں اسی طرح مخلوق کی خدمت کرتی تھی اور اسی طرح مخلوق کو فیض دیتی تھی۔ گھر کی خدمت کرتی تھی‘ لوگوں کے لیے بوجھ نہیں تھی‘ بڑھاپے کی ڈھیری اور بیماریوںکا صندوق نہیں تھی بلکہ ہر مریض کی عیادت کرتی‘ اس کو دلاسا دیتی‘ اس کو مالش کرتی صحت مند اور مریضانہ غذائیں پکا پکا کر کھلاتی وہ گھرکی آیا بھی تھی‘ وہ گھر کی دھوبن بھی تھی‘ وہ گھر کی خادمہ بھی تھی‘ وہ گھر کا سنگھار بھی تھی‘ محلے کی دلہن کوئی بھی ہو‘ دادی اماں کے بغیر نہ سنورتی تھی اور نہ بنتی تھی بلکہ جس دلہن میں کوئی کمی یا جھول دیکھی فوراً لوگوں نے کہا لگتا ہے اسے دادی اماں کےہاتھ نہیں لگے۔ گفتگو کا سلیقہ‘ کھانے کا انداز‘ پہناوا یہ سب کچھ دادی اماں نے سکھایا بھی تھا اور اپنایا بھی تھا لیکن بہت کم لوگ ان سے یہ چیز حاصل کرتے تھے۔
آئیے! میں آپ کو صحت مندی کا وہ راز بتاتاہوں جو دادی اماں نے میری والدہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا یعنی اماں کو بتایا۔
ٹی بی ہوئی تو ایک دانا حکیم نے یہ راز بتایا
کہنےلگیں: یہ اس دور کی بات ہے جب جنگ عظیم اول ختم ہوئی‘ مجھے ٹی بی ہوگئی ‘اس دور میں ٹی بی کی بیماری عام تھی‘ ہر کسی کو ہوجاتی تھی‘ میرے والدین نے ٹی بی کےعلاج کے لیے بہت بھاگ دوڑ کی‘ میں صحت مند ہوگئی‘ ٹی بی کےبہت بڑے معالج تھے‘انہوں نے نصیحت کی یہ بیٹی روزانہ نہائے‘ اگرروزانہ نہیں نہا سکتی تو ایک دو دن کاوقفہ کرلے لیکن جب بھی نہائے یہ کبھی تولیہ استعمال نہ کرے‘ خالص سرسوں کا تیل یا زیتون کا تیل سر سے لے کر پاؤں تک اس کی مالش کرے‘ اس کاطریقہ انہوں نے یہ بتایا کہ گیلے جسم پر تھوڑا سا تیل لیں خوب سر کو ملیںاگرآ پ تھوڑا محسوس کریں تو اور تیل سر کو لگائیں لیکن خوب جذب کریںصرف لگانا نہیں پھر اسی طرح گردن‘ پھر تھوڑا سا تیل ہاتھوں پر لگائیں‘ بازوؤں پر‘ پھراسی طرح ہلکا ہلکا تیل لگاتے جائیں جسم کے ہر حصے کی خوب مالش خوب جذب کرتے جائیں حتیٰ کہ رانیں‘ پنڈیاں‘ ٹخنے ‘پاؤں تک کی انگلیوں کے اندر بھی اس کے بعد پانی نہ بہائیں کیونکہ جسم گرم ہوگا‘ پانی بہانے سے یکایک ٹھنڈا ہوجائے گااور یہ سخت نقصان دہ ہے۔
دوسرا راز جو اکثر اماں بتاتی تھیں!
بس یہی راز ہے! اور دوسرا بوڑھی اماں اکثر بتاتی تھیں ہمیشہ چبا چبا کرکھاؤ‘ کم کھاؤ‘ بھوک کو آنے دو اور بھوک کا لطف لو‘ اور جب طبیعت میںبے چینی‘ بے کلی‘ بے قراری‘ بھوک کےنام پر بڑھ جائے پھر کچھ کھاؤ پیو ابھی بھوک کی طلب یعنی کھانے کی طلب ہو تو کھانا چھوڑ دو‘ بس یہی راز ہے اور یہی راز زندگی کے راز ہیں۔ کیا ہمارے پاس اپنے جسم کیلئے دس منٹ نہیں ہیں کہ ہم اپنے جسم کی مالش کریں‘ نہانے کے لیے جو کیمیکل استعمال کرتے ہیں وہ ہمارے جسم کو کھوکھلا کررہے ہیں اور سونے کے لیے جو میٹرس اور فوم استعمال کرتے ہیں وہ ہمارے جسم کو نچوڑ رہے ہیں‘ اس کی مثال یہ ہے کہ آپ جب زمین پر پانی گراہو تو فوم سے اس پانی کو جذب کرلیتے ہیں اسی طرح جب آپ گھنٹوں فوم پر بیٹھتے اور سوتے ہیں وہ آپ کےجسم کی تمام رعنائیاں
اور توانائیاں ان سب کوجذب کرلیتا ہے۔ وعدہ کریں! تولیہ چھوڑ دیں‘ سردی ہو یا گرمی‘ اپنے بدن کو ہلکا ہلکا تیل ضرور دیں‘ اور جسم کی ضرورت کو پورا کریں اور آخر میں ایک راز بتاتا جاؤں انسان کی طاقت خاص کا تعلق بڑی بڑی دواؤں اور غذاؤں سے نہیں اصل جلد سے ہے جس کی جلد صحت مند ہو گی اس کی طاقتیں ہمیشہ بیدار ہوں گی دلیل کے طور پرہر امراض جلد کا ڈاکٹر جب اپنا بورڈ لکھتا ہے تو ساتھ امراض مخصوصہ بھی لکھتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں